از
صوفی محمد عمران رضوی القادری
الاوفاق
قسط ۱۱؎
بسم اللہ الرحمن الرحیم
روحانی
تشخیص کے پچیس اصول
تشخیص کا لغوی معنی ہے مقرر کرنا اور اصطلاح ِ عملیات و روحانی علاج میں تشخیص
مرض کی کیفیت اور وجہ معلوم کرنے کو کہتے ہیں ،تشخیص اس تخمینے کا بیان ہے جو ایک
روحانی معالج بیمار کے صحتیاب ہونے کے اسباب و ذرائع کے تعلق سے لگاتا ہے ،تشخیص
ایک عمل ِ تحقیق ہے اور تحقیق کہتے ہیں کسی مسئلے کو حل کرنے کے لئے حد درجہ
احتیاط کے ساتھ معتبر ذرائع کو بروئے کار لاکر اس طور پر تجزیہ کرنا کہ امراض و
مسائل کا صحیح حل نکل جائے یا اس طرف کامل رہنمائی ہو جائے
مفہومِ تشخیص واضح ہونے کے بعد یہ جاننا چاہئیے کہ بیماری خواہ جسمانی ہو یا
روحانی ،علاج شروع کرنے سے قبل تشخیص لازمی ہے ،ایک اچھا روحانی معالج وہی ہوتا ہے
جو مریض کے ساتھ مخلص ہو دیانتدار ہو متقی ہو پرہیزگار ہو اور ساتھ ہی تشخیص
ِروحانی کاخوب تجربہ رکھتا ہو اور اس فن سے اچھی طرح واقف ہو ،عام طور پر یہ دیکھنے
میں آیا ہے کہ روحانی علاج و معالجہ کرنے والے حضرات الا ماشاء اللہ فلسفہء
تشخیصِ روحانی اور اس کے اصول و قوائد سے ہی نا بلد ہوتے ہیں ،نا واقفی و نا اہلی
کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ عملیات کی کتابوں میں دریافت مرض کے چند اعمال اور
طریقے تو درج ہوتے ہیں لیکن بیان و احکام ِ تشخیص کے اصول و قوائدکہیں مذکور نہیں ،باوجود اس کے فقیرِ
قادری عرض کرتا ہے کہ نا واقفی کی یہ وجہ غیرمعقول اور نا جاننے کا عذرنا مقبول ہے
کیوں کہ تعویذات و روحانی علاج کی اجازت اسی شخص کو ہوا کرتی ہے جو پابندِ شرع
ہونے کے ساتھ لوگوں سے معاملات میں شرعی احکام کا بھی خوب جاننے والا متصف باخلاقِ
حمیدہ ہو،جب ایسا شخص تشخیص کرے گا تو یقیناً دریافتِ حالِ مریض کے لئے وہی طریقہ
اختیار کرے گا جو معتبر ہو اور بیان
احکامِ تشخیص میں کبھی بھی حدودِ شرع کو عبور نہیں کرے گا لہذا کتبِ اعمال
میں اگر اب تک تشخیصِ روحانی کے اصول و قوائد کا اندراج نہیں ہوا تو جائے تعجب کچھ
نہیں کہ یہ کام یعنی تشخیص و علاجِ روحانی ہرکس و ناکس کا کام تو نہیں تھا
فی زمانہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ عوام کو تو خیر رہنے دیجئےبعض خواص کہلانے والے
بھی تشخیص مرض اور بیان حال و استخارہ کو لیکر اس قدر بے احتیاطی برت رہے ہیں جسے
سن کو حیرت و استعجاب ہوتا ہے ،بے احتیاطی کی وجہ ظاہر ہے عامل یہ سمجھتا ہے کہ جب
تک ہم مریضوں کو ایسی بات نہ بتائیں کہ جسے سن کر وہ سمجھیں کہ عامل صاحب بہت
پہنچے ہوئے صاحبِ کشف ہیں تب تک مریض علاج کے لئے تیار نہیں ہوں گے لہذا تشخیص و
استخارے کے نام پر مریضوں کو بے سر و پیر کی باتیں بتا نا اور انہیں نفسیاتی مریض
بنانا یہ چلن اب عام ہے،ایک طرف الا ماشاء اللہ عاملین کا یہ طرز و طریق ہے تو
دوسری جانب عوام بھی ذمہ دار انہیں علاج و
فائدےسے زیادہ سحر جادو کی تصدیق مطلوب ،اس واسطے فقیرِ قادری نے خصوصاً اپنے
احباب کی تربیت کے لئے اور عموماً روحانی علاج کرنے والے ذمہ دار عاملین و معالجین
کو توجہ دلانے کی خاطر یہ پچیس اصول و قوائد مرتب کئے ہیں امید واثق ہے کہ نئے
سیکھنے والے شائقینِ فنِّ عملیات کوبھی اس سے مکمل رہنمائی ملے گی ان شاء اللہ
اصول
نمبر ایک
تشخیص کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب مرض کی وجہ نا معلوم ہو ہر ایک مریض کی
تشخیص ِ روحانی ضروری نہیں جب کہ کفیت سننے یا مریض کو دیکھنے کے بعد عامل پر مرض
اور اس کی وجہ علت عیاں ہو جائے، دراصل یہ ملکہء تشخیص ہے جو کہنہ مشق عامل اور روحانی
معالج کو بے شمار تجربات کے بعد حاصل ہوتا ہے لہذا جب عامل اس درجے کا ہو تو
اسےرسماً یا تکلفاً تشخیص کرکے مریض یا اس کے اہل خانہ کو کچھ دکھانے یا بتانے کی
قطعاً کوئی حاجت نہیں صرف علاج تجویز کرے
اصول
نمبر دو
استخارہ اور تشخیص سے قبل عامل اپنے
ذہن کو بالکل خالی اور غیر جابندار رکھے اگر ایسا نہ کرےگا تو خائن ہوگا مثلاً کسی
کو نادعلی شریف پڑھ کر پانی پر دیا یا دھاگا ناپ کر دو بارہ ناپنے کو کہا یا خود
ناپایا کوئی نقش ہتیلی میں پکڑنے کو دیا یا کسی نقش میں دیکھنے کو کہا یا حاضرات
کے ذریعہ اموردریافت کرایا ان تمام صورتوں میں اگر عامل نے پہلے سے کوئی نتیجہ بر
آمد کیا ہوا ہو تو وہ اپنی قوت متخیلہ کو
بروے کار لاکہ جوابِ استخارہ یا تسخیصِ مرض اپنے خیال کے مطابق حاصل کرسکتا ہے
مثلاً کسی پر اگر سحر نہ ہو لیکن عامل چاہے تو تسخیص میں علاماتِ سحر کو ظاہر کردے
اور یہ سب قوت خیال سے ممکن ہے لہذا ایسی صورت میں عامل خیانت کرنے والا گمراہ
کرنے والا ہوگا
اصول
نمبر تین
تشخیص مرض و حالات کے مختلف طریقے
ہیں جب کسی ایک طریقے سے تشخیص کرلی تو اب دوسرے طریقوں پریہ پرکھا نہیں جائیگا
ورنہ سخت مغالطہ اور حیرانی ہوگی ، عامل یوں بھی نہ کرے کہ مثلاً علم الا عداد سے
سحر آیا ہے اور اب مریض یا اسکے رشتہ داروں کو دکھانے کیلئے دھاگہ نپوائے ایسا
کرنے سے عامل کا مقصد اگر چہ مریض کو یقین دلانا ہو یا اپنے تشخیص کا ملکہ بتاناہو
بہر صورت یہ غلطی ہے ، یوں بھی نہ کرے کہ دھاگہ ناپنے پر گھٹ یا بڑھ جائے تشخیص ہو
جائےپھر کچھ دیر بعد یہ دو تین دن بعد مریض یا اس کے اہل خانہ کسی کو لےکر آئے اور
کہے کہ ان کے سامنے بھی دھاگہ نپوا لیجئے
تاکہ انہیں بھی یقین ہوجائے، عامل اس قسم کی جاہلانہ فرمائش پر کان نہ دھرے غرضیکہ
تشخیص ایک بار ہی کرے خواہ کسی طریقے پر ہو دو بار تشخیص ہر گذنہ کرےخواہ اسی
طریقہ سے ہو یا کسی بھی دوسرے طریقے پر۔
اصول
نمبرچار
دورانِ علاج بھی تشخیص سےگریز کیا جائے اور مریض کو بھی تا کید کیا جائے کہ
علاج کے دوران دوسرے معالجین یاعاملین سے تشخیص کراکے خود کو ہلکان نہ کرے ور نہ
نحوست کا شکار ہوگا، عامل علاج کرتے ہوئے مریض پر توبہ بطور معائز رکھےاور یوماً
فیوماً اس کےصحت یاب ہونے کی دعا کرتا رہے
یہ جاننا چاہیئے کہ تشخیص کا اب علاج و معائنےمیں کوئی دخل نہیں ہے، معائنہ سے
مراد یہاں دورانِ علاج روحانی دیکھ ریکھ ہے۔
اصول
نمبر پانچ
روحانی معالج اور عامل کے پاس آنے
والے ہر مریض کی تشخیص ضروری نہیں مثلاً کوئی شخص سر درد یا کوئی جسمانی عارضہ کے
لئے نقوش مانگے یا دم کرنے کا کہے تو اسے لاحق مرض کا دم کردیا جائے یا نقوش دے
دئے جائیں خواہ مخواہ تشخیص نہ کرے۔
اصول
نمبر چھ
مریض یا اس کے اہل خانہ سے مریض کی کیفیت دریافت کی جائے کہ اکثر علامات سحر و
آسیب کا اندازہ اس سے بھی ہو جاتا ہے اب
یہ جاننے کیلئےکہ آیا آسیب ہے سحر ی اثر استخارہ یا تشخیص کریں
اصول
نمبر سات
بہت سارے نادان اور ادھ پکی جانکاری رکھنے والے لوگ عاملین کے پاس جاکر صرف
مریض کا یاخود اپنا نام بتاتے ہیں اور کہتے ہے دیکھئے مجھے کیا پریشانی ہے ، گویا
وہ عامل کو جیوتش خیال کرتے ہیں یا یہ سمجھتے ہے کہ انہیں غیب کا علم ہےیا کوئی جن
یاموکل انہیں میرے بارے میں سب کچھ بتا دے گا یہ سب جہالت ہے روحانی علاج اور
تشخیص مرض کا ان تو ہمات سے کچھ واسطہ نہیں لہذا عامل کو خود بھی ان باتوں کوذہن
میں رکھتے ہوئے ان میں سے کسی چیز کا دعویدار نہیں ہونا چاہیئے اور اگر کوئی صرف نام بتاکر تشخیص کروانا چاہے
تو اسے مریض کی کیفیت بتانے کو کہے اگر بتائے تو تشخیص کرے ورنہ اعراض کرے عامل کا
کام روحانی علاج کرنا ہے نہ کہ اٹکل پچو سے غیب کی خبریں دینا حالاکہ اہل نجوم کا
بھی اس امرپراتفاق ہے کہ سائل کو اپنا
زائچہ بنانے سے قبل اپنی پریشانی بتادینی چاہیئےتا کہ زائچے میں ان خامیوں کے دور
کرنے کا حل تلاش کیا جاسکے۔
اصول
نمبر آٹھ
روحانی علاج کے لئے جوتشخیص کی جاتی
ہے پھر اس سے جو نتیجہ بر آمد کیا جاتا ہے اس پر جو حکم لگاتے ہیں سحر یا آسیب یا
جسمانی مرض کا یہ ایک اندازہ اور ظن ہے جس میں غلطی کا بھی امکان ہے، یہ بات عامل
اور علاج کروانے والے مریض دونوں کے علم میں ہونی چاہیئے یوں نہ ہوکہ عامل و مریض
تشخیص و استخارہ کے جواب کو قطعی و یقینی جانے، ہاں اتنا ہے کہ جس طرح تجربہ کار
حکیم یا ڈاکٹر اپنے تجربے سے تشخیص کرکے علاج تجویز کرتے ہیں اور عوام انکی تجربہ کاری کو دیکھتے ہوئے ان پر اعتماد
کرکے جیسا وہ کہے علاج کرواتے ہیں اور شفا ءپاتے ہیں ٹھیک اسی طرح روحانی معالج و
عامل بھی اپنے تجربات کی روشنی میں سحر وآسیب زدہ کا علاج کرتا ہے اور لوگوں کو
فیض پہنچاتا ہے، لہذا تجربہ کار عامل کی تشخیص پر خود عامل کو اور مریض کو بھی
اعتماد توضرورہو لیکن یہ یقین اور قطعیت
کے درجے کہ نہ پہنچے ۔
اصول
نمبر نو
جب علاج مکمل ہو جائے مریض شفا یاب ہو
جائے اثرات ختم ہو جائیں ، علامات مٹ جائیں تو اب یہ دیکھنے کیلئے کہ اب بھی سحر
ہے یا نہیں یا آسیب دفعہ ہوا یا نہیں تشخیص نہیں کی جائیگی کیونکہ تشخیص تو مرض یا
اس کی علت جاننے کیلئے کرتے ہیں اب جب کہ کوئی مرض یا پریشانی ہے ہی نہیں تو تشخیص
کا یہاں کیا کام لہذا شفا یابی کے بعد تشخیص ہر گذ نہ کرے اور مریض کو بھی تاکید
کریں کہ کسی دوسرے معالج سے تشخیص نہ کروائے ورنہ عین ممکن ہے کہ بلا وجہ و سوسہ
اور وہم کا شکار ہو گا ہاں اگر علا ج کو
عرصہ بیت کیا اب دو بارہ کوئی نئی پریشانی یا وہی پرانی کیفیت طاری ہو تو اب پھر نئے سرے سے تشخیص کرےاور جب تک شفا
نہ ملے علاج اسی سالقہ تشخیص کے مطابق جاری رکھے۔
اصول
نمبر دس
جس طرح جسمانی مرض کی تشخیص میں اطباء
عاجز رہتے ہیں ڈاکٹر حیران حکم پریشان ہوتے ہیں اور با وجود مختلف ٹسٹ کے کوئی
بیماری ظاہر نہیں ہوئی ٹھیک اسی طرح روحانی علاج و استخارے میں بھی بعض دفعہ وجہ معلوم کرنے سے عامل قاصر رہتا ہے
یعنی یہ سمجھ نہیں آتا کہ مریض پر سحر ہے یا آسیب یا نظر بد یا حسد ، پھر اگر
تشخیص ہو جائے تو یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ آیا سحر بالحر کت ہے یا سحر بالخود،
اگر آسیب ہے تو کیونکر لپٹا ہے وجہ دشمنی ہےیا عاشقی وغیرہ وغیرہ لہذا جب ایسی
صورت حال ہو تو تفصیلی تشخیص میں زیادہ وقت صرف نہ کرے بلکہ علاج کی طرف توجہ کرے
اور نقوش و تعویذات شفائے امراض جسمانی و روحانی دونوں کام میں لائے بہر حال شفاء
کا حصول ہوگا۔
اصول
نمبر گیارہ
یہ جاننا چاہیئے کہ تشخیص روحانی
تعبیر خواب کی مانند ہے جس طرح خواب کا اثرتعبیر دینے والے کے مطابق ہوتا ہے یعنی
جس طرح تعبیر دے اچھا یا برا خواب دیکھنے والے کو حقیقت امر میں واقع ٹھیک اسی طرح
پیش آجاتا ہے بعینہ استخارہ یا تشخیص کروانے والے مریضوں کے بارے میں عامل جو
بتاتا ہے بعض اوقات واقع اسی کے مطابق ہوتا ہے اور مریض اسی کیفیت میں ڈھلا ہوتا
ہے یا ڈھلنے لگتا ہے لہذا عامل کو چاہیئےکہ تشخیص میں جو کچھ آئے اس کےبتانے میں
خوب احتیاط سے کام لے اور اپنے جملوں کو ادا کرنے
سے قبل خوب غور و فکرکر لے اور اس سے بھی اہم یہ کہ علاج کے لئے کوئی ایسی
شرط نہ لگائے جسے مریض پورا نہ کرسکے اگر
کوئی خاص طریقہ بتانا بھی ہوتو اس کے متبادل کوئی دوسرا طریقہ بھی بتائےتاکہ مریض حسب موقع و
حیثیت علاج کرواسکے ، یہ بات بھی نہایت
اہم ہے کہ تشخیص کرنے والا اگر چہ کچھ نہ
بھی جانتا ہو لیکن اس کے بول دینے سے مریض یا سائل سے وہ بات اچھی ہو یا بری متعلق ہوجاتی ہے جس طرح خواب کی
تعبیر بتانے والا بھلے ہی جاہل ہو لیکن جو تعبیر اس کے منہ سے نکل گئی وہ خواب
دیکھنے والے سے چپک جائے گی، اس موضوع پر فقیر نے الاوفاق کی قسط نمبر۴؎ میں کچھ تفصیل سے لکھا ہے۔
اصول
نمبر بارہ
جب سائل یا مریض خودبولے کہ مجھ پر جادو کیا گیا ہے میں نے فلاں فلاں مولانا
صاحب کو دکھا یا انہوں نے بتایا ہے کہ جادو کروایا گیا ہے زرا آپ بھی دیکھ لیجئے تو ایسے مریضوں اور سائلوں
کیلئے سب سے پہلے ہدایت اور رحم کی دعا کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالی انہیں ھدایت دے اور ان پر رحم فرمائے آمین، اور یہ سمجھنا چاہیئے کہ ایسے مریض
مختلف قسم کے عاملوں اور مولویوں سے مسلہ بتاکر تشخیص کرواکے انواع اقسام کے نتیجے
اور تعبیریں جمع کرتے ہیں جس کی وجہ سے مسئلہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے لہذا ایسی
صورت میں خود مریض کے بتائے ہوئے حکم کو جو اسنے پہلے کہا ہو فرض کرکے علاج شروع کرسکتے ہیں ان شا ء اللہ اسے
فائدہ ہوگا، اور خود اپنی تشخیص بھی کرسکتے ہیں لیکن مریض یا اس کے اہل خانہ کو
بتانے کی قطعاً حاجت نہیں بلکہ نہ بتانے میں ہی مریض کا بھلا ہے۔
اصول
نمبر تیرہ
روحانی مریض کی تشخیص معروف روحانی
قوائد پر کرنی چاہیئے اور عامل اُس طریقے کو بروے کار لائے جس میں اسے خوب مہارت
ہو خواہ مخواہ نئے نئے قوائد کی آزمائش نہ کرے، اگر دو چار طریقوں کی خوب مشق ہے
تو پھر حرج نہیں جس طریقہ سےچاہے تشخیص
کرلے۔
اصول
نمبر چودہ
تشخیص ، استخارہ اور فال میں فرق
ملحوظ رکھنا چاہیئے ، یہاں فال کا کچھ کام نہیں ، تشخیص سے اجماعی کیفیت معلوم
کرتے ہیں اور استخارہ یا کشف سے مرض کی تفصیل اور اس کا علاج معلوم کرسکتے ہیں
لیکن اکثر کیس میں تفصیل پتہ کرنے کی حاجت نہیں ہوتی سوائے اس کیس کے کہ جس میں علاج
تجویز کرنا نہایت دشوار ہو، ایسے معاملات میں کشف، خواب یا جفر سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے،بعض اوقات کشف یا
الہام سے علاج کی طرف رہنمائی ہوتی ہے اگر ایسا ہو تو ضبط لازم ہے
اصول
نمبر پندرہ
حاضرات سے بھی تشخیص کی جاسکتی ہے اس
میں جواب ٹھورا تفصیل سے حاصل ہوتا ہے اور بعض اوقات علاج بھی معلوم کرلیتے ہیں
لہذا اگر کوئی صحیح حاضرات کرتا ہو جھوٹ
اور بناوٹی باتوں سے مکمل احتراز کرتا ہو، پھر حاضرات میں بتائی گئی مبہم باتوں کی صحیح تاویل پر قدرت بھی رکھتا ہو
تو ایسی تشخیص بلاشبہ درست ہے۔
اصول
نمبر سولہ
عموماً یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ کسی آسیب زدہ مرد یا عورت پر جب حاضری آتی ہے
تو لوگ اس سے اپنے مسائل کا تذکرہ کرتےہیں اس کی وجہ پوچھتے ہیں اورمسئلےکا حل
معلوم کرتے ہیں یہ ایک جاہلانہ کام ہے حاضری والے مریض کے کسی بات کا کوئی اعتبار
نہیں کیا جائیگا ، اکثر یہ حاضری والے روحانی مریض نہیں ہوتے بلکہ نفسیاتی مرض کا
شکار ہوتےہیں اور اپنے اوپر حاضری کی کیفیت طاری کرکے لوگوں کی توجہ کا مرکز بننا
چاہتے ہیں اور کچھ تو واقع آسیب زدہ ہوتے
ہیں اور آسیب و جن کی حاضری سے تکلیف اٹھاتے ہیں بہر صورت ان دونوں سے کوئی سوال
پوچھنا ایک احمقانہ فعل ہے
اصول نمبر
سترہ
وہ لوگ جن پر سواری آتی ہے اور وہ یہ دعوہ کرتے ہیں کہ ان پر فلاں فلاں بزرگوں
کی روحیں آتی ہیں ایسے شخص سے لوگ اپنے
مسائل کا حل اور مریضوں کا علاج کرواتے
ہیں تویہ جاننا چاہیئے کہ کسی بھی بزرگ کی روح ہرگذ دوسرے کے جسم میں حلول نہیں
کرتی اور جو شخص اس حوالے سے کوئی بات کرے
مریض کا حال بتائے یامشکلات کا حل سمجھائے
اس سے یہ باتیں قبول نہیں کی جائیں گی یہ بہت بڑی جسارت ہے ، شرعی اور فنی ہر
دو اعتبار سے بھی یہ لغو اور بیہودہ بات
ہے۔
اصول
نمبر اٹھارہ
روحانی معالج کو ایسے لہجے سے بھی
گریز کرنا چاہیئے کہ جس میں یہ ظاہر ہوتا ہو کہ وہ کوئی بات غیب سے معلوم کرکے بتا
رہا ہے ، ہاں کچھ باتیں کشفِ صحیح سے معلوم ہو جاتی ہیں لیکن اسے بھی بتانا ضروری
نہیں اور ضبط ہی میں عافیت ہے۔
اصول
نمبر انیس
اکثر لوگ عاملین کے پاس آکر خود ہی
کہتے ہیں کہ مجھ پر ہمارے فلا ں رشتہ دار
نے جادو کروایا ہے زرا آپ چیک کیجئے اس صورت میں عامل کو چاہیئے کہ سائل کو یہ بتائے کہ کسی پر بغیر ثبوت کے اس
قسم کا الزام رکھنا گناہ ہے، پھر عامل خود تشخیص کرے اگر سحر وغیرہ نکل آئے تو
علاج تجویز کرے لیکن سائل کے گمان کو یکسر خارج کردے جو اسے کسی پر شک کی بنا پر
ہے، اس طرح عامل سائل کو نفسیاتی مریض
بننے سے بچاسکتا ہے۔
اصول
نمبر بیس
تشخیص کے ذریعہ سحر تو معلوم کیا جائے گا لیکن ساحر یا کروانے والے کا معلوم
کرنا ضروری نہیں نہ اس کی کوئی حاجت علاج میں در پیش ہوتی ہے سوائے اس صورت خاص کے
کہ جس میں ساحر خود یہ ظاہر کردے کہ اس نے ہی یہ سب کیا ہے۔
اصول
نمبر اکیس
علم الا عداو اور علم نجوم سے سحر
کرنے والے کا سمت معلوم کرتے ہیں اور مثلاً سائل کو بتاتے ہیں کہ جس نے جادو کیا
ہے وہ تمہارے مشرق میں رہتا ہےپھر سائل مشرق میں رہنے والے تمام رشتہ داروں اور
دوست احباب کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتا ہے اگر
ان میں ہی سے کسی پر اس کا شک پہلے سے ہوتو وہ یقین میں بدل جاتا ہے اس طرح
یہ بلا وجہ اپنا دماغ خراب کرکے نفسیاتی مرض میں گرفتا ر ہو جاتا ہے لہذا عامل کو
چاہیئے کہ ہر گذ اس قسم کا کوئی حساب نہ لگائے کہ بالفرض اگر اندازہ بھی لگا لےکہ
کس سمت سے جادو ہوا ہے تو اس سے علاج میں کوئی مدد ملنے والی نہیں ، روحانی معالج
کو عقل سے کام لینا چاہیئے جن باتوں کا علاج سے تعلق نہیں اس میں سر کھپا نےسے کیا
فائدہ
اصول
نمبر بائیس
کچھ سائل عاملین سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں سحر کروانے والے کا نام بتا
دیجئے تا کہ ہم اس سے محتاط رہیں اس صورت میں عامل کو چاہیئے کہ سائل کو حفاظت کی دعائیں پڑھنے
کو دے اور بہتر ہے کہ سی وسہ آیات بتائے
جب تک اسے پڑھا جائےگا ان شا ء اللہ کسی جادو گر کے جادو کا اثر نہیں ہوگا بس یہی
طریقہ ہے حفاظت کا ناکہ ساحرکا نام جاننا
لہذا عامل کو ایسے بے وقوفانہ سوال پر کان
دھرنے کی ضرورت نہیں ۔
اصول
نمبر تئیس
تشخیص یا استخارے سے چور کا نام معلوم کرناسراسر غلط ہے ، بزرگوں سے منسوب جو
چند طریقے اور اعمال ہیں وہ بر بنائے حکمت و مصلحت ہیں اس کی اجازت ہر عامل کو
نہیں پھر یہ بھی کہ جو معلوم ہوتا ہے وہ ایک ظن ہے یقینی و قطعی نہیں اور ظن کی
بنیاد پر کسی پر اس طرح کا الزام لگا دیتا یہ شرعاً نا جائز اور فتنہ و فساد کا
سبب لہذا مطلقاً منع ہوگا، اگر عامل کے پاس لوگ اس واسطے آئیں تو انہیں مال کی
واپسی یا چور کو تکلیف پہچانے کے تعویذات
دے لیکن کسی کا نام وغیرہ بتا کر خود اپنا نام خراب نہ کرے۔
اصول نمبر چوبیس
مکان یا کسی جگہ پر جادو کے دفن ہونے کا اندیشہ ہو اور یہ معلوم نہ ہو پائے کہ
کس جگہ دفن ہے تو عامل کو مدفن معلوم کرنا ضروری نہیں اگر یہ لازم ہوتا کہ جادو کی
اشیاء کو نکال تباہ کرنا ہی پڑے گا جب سحر کی کاٹ ہوگی تو شاید سحر کا علاج نا
ممکن ہو جاتا یہ جاننا چاہیئے کہ جادو گر قبرستان اور شمشان یا ویرانے میں ہی
بکثرت اس قسم کی چیز دفن کرواتے ہیں بلکہ ثریر جنات جو جادو کرتے ہیں وہ توطلسم کو دریا کی تہ میں دفن کرتے ہیں اب بتائیے عامل علاج کرے گا یا پن ڈبی بنے گا،روحانی ،معالج کو سحر کا علاج
باقائدہ کرنا چاہئیے جس طرح موکلین ِ آیاتِ الہیہ قبرستان و شمشان اور سمندروں کی
تہوں میں دفن طلسمات کو باطل کرتے ہیں اسی طرح گھر یا دوکان میں گڑے جادوئی اشیاء
کا بھی بطلان کر دینا ان کے لئے کیا
مشکل کام ہے ؟
اصول
نمبر پچیس
گذرے ہوئے واقعات و حادثات کے متعلق
تشخیص نہیں کی جائیگی کہ آیا اُن کا سبب قدرتی تھا یا سحر جادو یا شیطانی اثر اسی
طرح سائل کے اندیشوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مستقبل میں جادو سحر ہونے کی پیشن گوئی
کرنا ایک ذمہ دار عامل کو زیب نہیں دیتا روحانی معالج کا کام صرف یہی ہے کہ وہ حفظ ما تقدم کے طورپر
سائل کو کچھ پڑھنے کو دے یا کوئی تعویذ حفاظت کی لکھ دے بلکہ اس کی ذمہ داری ہی یہ
ہے کہ وہ لوگوں کو فرضی ، اندیشوں ، نفساتی و شیطانی وسوسوں اور تومہمات سے بچانے
کی سعی تمام کرے، بحمد اللہ فقیر قادری غفرلہ
عرصہ دراز سے یہی کرتا آرہا ہے
یہ پچیس اصول تشخیص مرضِ روحانی اور اس کے بیان میں میں مذکور ہوئے انہی پر حصر نہیں تجربہ اور
تحقیق سے اس میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے اور ممکن ہے کہ اس وقت فقیر کا ذہن بعض
اصولوں کا استحضار نہیں کرپایا اور جو مستحضر ہوا وہ احباب کی خدمت میں حاضر کردی
ان شا ء اللہ یہ قوائد آپ کوکہیں اور دیکھنے کو نہ ملے گے اللہ تبارک تعالیٰ مجھے
اور میرے تمام احباب کو علم نافع عطا ء فرمائے آمین