Tuesday, August 31, 2021

Aamileen Ko Chillo'n me'n Sufiyana Rawish Chahiye

 

حدیث شریف میں فرمایا من اخلص للہ اربعین صباحا ظھرت ینابیع الحکمۃ من قلبہ علی لسانہ جس نے چالیس دن اللہ کے واسطے خالص کر دئے یعنی چالیس دن خلوص کے ساتھ ذکر الہی میں مشغول رہا تو حکمت کے چشمے اس کے دل سے پھوٹ کر اس کی زبان پر آجاتے ہیں ،قرآن مقدس میں بھی حضرت ِ موسیٰ علیہ السلام کے واقعے میں چالیس دنوں کی تخصیص پائی جاتی ہےفرمایا  وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰى ثَلٰثِیْنَ لَیْلَةً وَّ اَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّهٖۤ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةًۚ- اور ہم نے موسیٰ سےتیس رات کا وعدہ فرمایا اور ان میں دس اور بڑھا کر پوری کیں تو اس کے رب کا وعدہ پوری چالیس رات کا ہوااور یہی چہل روزہ چلہ کشی کی اصل ہے  جو صوفیائے کرام  یا عاملین کے طریقوں میں رائج ہے

 

صوفیاء کرام کا چلہ

فرمایا صوفیا ء کرام جو اربعین کا اہتمام کرتے کراتے آئے ہیں اس سے ان کا مقصدذکر و اذکار کے لئے   اوقات کو منضبط کرنا ہےکہ جیسے دوران چلہ پابند ہیں اسی طرح ہمیشہ کاربند و پابند  رہیں، نفس کا مجاہدہ کہ احوالِ نفس کی جستجو کر سکے  ، صفائے قلب کہ دل ما سوی اللہ سے خالی ہوجائے ،استقامت تاکہ باطنی مقامات کے اصطلاحوں سے واقفیت ہو سکے     ،توجہ الی اللہ اور جو کچھ اس ضمن میں ہیں سوائے اس کے اور کوئی مقصد نہیں ہوتا یہ الگ بات ہے کہ دوران چلہ یا بعد، چلہ کشی کے نتیجے میں ان سے خرق عادات اورکشف و کرامات کا ظہور ہونے لگتا ہے لیکن  حاشا و کلا وہ ہرگذ ان چیزوں کے طالب نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان کا منتہائے مقصود رضائے الہی ہوتا ہے اور بس  ،بلکہ جو ان چیزوں کا طالب بن کر چلہ کش ہوتا ہے اسے کبار صوفیا ء اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے  اس باب میں شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں"  کچھ لوگوں نے خلوت نشینی اور چلہ کشی کے معاملہ میں فاش غلطی کی اور غلط روش کو اپنایا ہے اور انہوں نے اس سلسلہ کے کلمات میں تحریف کی ہے اور الفاظ کو غلط معانی پہنائے ہیں گویا شیطان نے ان کے نفس پر غرور کا دروازہ کھول دیا ہےاور وہ اُس اخلاص کے بغیر جو خلوت نشینی کا حق ہے ،خلوت میں جاکر بیٹھ گئے ہیں ،ان لوگوں نے یہ سن لیا تھا کہ مشائخِ کبار اور صوفیائے عظام سے خلوت نشینی کے موقعہ پر خلافِ عادت عجیب و غریب واقعات و کرامات ظاہر ہوتے ہیں پس اسی چیز کو وہ حاصل کرنے کے لئے خلوت گزیں ہوتے ہیں لیکن یاد رکھنا چاہئیے یہ ایک روحانی بیماری ہے اور تمام تر گمراہی و ضلالت ہے"

 

 

عاملینِ محض کا چلہ

عام طور پر عاملین حضرات میں جو عامل ِ محض  ہیں   وہ جس  مقصد غرض  و غایت کے لئے چلہ نشین ہوتے ہیں  اس کا تعلق اکثر دنیاوی امور و معاملات سے ہوتا ہے یا وہی کشف و کرامات  اور یہ کہ اس طرح کے  عاملین کا مطمحِ نظر قربِ الہی نہیں ہوتا ،یہاں اذکار و دعوات و مسخرات کسی ہدف کو پانے اور حصولِ تصرفات کے لئے کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اگر اعمال وغیرہ میں ناکامی ہوتی ہے یا وظیفے کا اثر نہیں دکھتا توعاملِ محض کی  زبان شکوہ شکایت کئے بغیر نہیں رہتی، قلب مضطرب و بے چین ہوجاتا ہے اور دماغ میں فتور پیدا ہوجاتا ہے   جب کہ صوفیاء کا چلہ کشی سے مقصد سوائے قرب و رضائے  الہی کے اور کچھ نہیں ہوتا اس لئے نہ یہاں شکوہ ہے نہ شکایت نہ بےصبری بلکہ یہاں اطمنان ہے سکون ہے وقار ہے ،رب العزت کے وعدہ     فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ اَنِّیْ لَاۤاُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ  مِّنْكُمْ"تو ان کی دعا سن لی ان کے رب نے کہ میں تم میں کام والے کی محنت اکارت نہیں کرتا  " پر کامل بھروسہ ہے

عامل ِمحض نہ بنئے  صوفیانہ روش بھی اختیار کیجئے

یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ صوفیاء میں بہت ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے عاملین کے طریقے پر بھی  چلہ کشی ،عبادات و ریاضات کیں بلکہ اس شریف فن کے موجد و مجدد قرار پائے ان میں  نمایا نام حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری رحمہ اللہ کا ہے  حضرت کی تصنیف جواہر خمسہ امہات کتب میں شمار کی جاتی ہے  جس میں انہوں نے ہر دو طریق کا ذکر کیا ہے لیکن  اور یہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں کہ عملیاتی رنگ اس کتابِ مستطاب  پر غالب ہے  ،باوجود اس کے یہ کتاب علماء کرام صوفیاء عظام عاملین و سالکین سب کے لئے مفید، کوئی طبقہ ایسا نہیں کہ جس نے اس کتاب سے استفادہ نہ کیا ہو ،یہ کیوں ہے یہ اس لئے ہے کہ  کبار صوفیاء نے فن عملیات و دعوات  و اذکار  کوسلوک و تصوف کا تابع بنا کر پیش کیا اور خود اس پر عمل کر کے دکھایا    لہذا جو ان بزرگوں کے طریقے پر رہا اس نے دین و دنیا میں فلاح پائی  اور جوآدابِ سلوک و تصوف سے عاری ہو کر محض عملیات کے پیچھے بھاگا  تو اگرچہ اس نے کچھ کامیابی حاصل کر لی لیکن وہ  حیران و پریشان ہی رہا  ،اس میں کوئی شک نہیں کہ عملیات ایک مستقل فن ہے اور یہ ممکن ہے کہ اس فن میں  مومن صادق کے ساتھ فاسق و فاجر  بھی کمال پیدا کر لے جیسا کہ امام احمد بونی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ فن مو من  صالح کے لئے کرامت اور فاسق  معلن کے واسطے استدراج ہے  اس لئے فقیر اپنے احباب سے ہمیشہ یہ کہتا ہے کہ عامل محض نہ بنئے  ،صوفیانہ روش بھی اختیار کیجئے مضامینِ تصوف بھی دیکھا کیجئے اس سے آپ کے اندر شعور و آگہی پیدا ہوگی،صبر و استقامت کا مفہوم سمجھ آئے گا  اور اعمال و اشغال کےصحیح منتہائے مقصود  کا پتہ چلے گا،  اگرچہ عملیاتی طرز کے چلے کریں شرائطِ عامل بجا لائیں   لیکن روش وہی صوفیانہ رکھیں کوئی عمل کوئی وظیفہ شوق و محبت سے پڑھیں یہ خیال کریں کہ کیا یہ نقد فائدہ نہیں کہ اتنی دیر اللہ تعالی کے ذکر میں لگا رہا اس سے بڑھ کر اور کیا حاصل ِ مقصد ہوگا ،دنیاوی غرض و غایت کو طاق پر رکھ چھوڑیں  کہ جب بندہ خدا کے ذکر میں لگ جاتا ہے تو ساری خدائی اس کے کام  کوسنوارنے میں جٹ جاتی ہے ،اس انداز اور اس فکر سے اپنا روحانی سفر جاری رکھیں  تاکہ عاملین صوفیا ء کے خداموں میں ہمارا نام لکھا جا سکے  اور اس باب میں کی جانے والی محنت کا اجر دنیا کے ساتھ آخرت میں بھی کامل طور پر ملے آمین آمین

 

 


Log into PositivUS to start using it. Click in the toolbar button

Featured Post

AL AUFAAQ (Vol-14) الاوفاق

Book Your Copy Now +91-9883021668