ادرایہ الاوفاق قسط ۵
از صوفی محمد عمران رضوی القادری
بسم اللہ الرحمن الرحیم
روحانی مرض کی تشخیص تعبیرِ خواب کی مانند ہے
اللہ رب العزت نے قرآن مقدس کے اندر
سورہ یوسف میں حضرت یوسف علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کے واقعات مفصل بیان
فرمایا ہے جس میں ایک واقعہ دوران اسیری جیل خانے میں دو قیدیوں کو ان کے خواب کی
تعبیر بتانے والا بڑا مشہور ہے اس واقعے
میں عقل والوں کے لئے مختلف جہات سے درسِ عبرت ہے ،تو آئیے سب سے پہلے ہم بطورِ
تمہید مختصراً اس واقعہ کا ذکر کرتے ہیں
جب حضرت یوسف علیہ السلام کو
عزیز مصر نے قید خانے میں ڈلوا دیا تو ان کے ساتھ دو اور قیدی بھی تھے جن میں ایک
بادشاہ کا نانبائی تھا جو کہ مطبخ کا منتظم تھا اور دوسرا ساقی جو محفل عیش و طرب
کا نگران تھا ان دونوں پر یہ الزام تھا کہ
انہوں نے کھانے اور شراب میں زہر دے کر بادشاہ کوقتل کرنے کی کوشش کی تھی قید خانے
میں ان دونوں نے خواب دیکھا اور آپس میں
یہ فیصلہ کیا کہ ہم دونوں اپنا خواب حضرتِ یوسف علیہ السلام کو بتا کر اس
کی تعبیر معلوم کریں گے اس طرح ان کے علم کو بھی آزما لیں گے جس کا ذکر قرآنِ مقدس میں یوں ہے
وَ دَخَلَ مَعَهُ
السِّجْنَ فَتَیٰنِؕ-قَالَ
اَحَدُهُمَاۤ اِنِّیْۤ اَرٰىنِیْۤ اَعْصِرُ خَمْرًاۚوَ قَالَ الْاٰخَرُ اِنِّیْۤ
اَرٰىنِیْۤ اَحْمِلُ فَوْقَ رَاْسِیْ خُبْزًا تَاْكُلُ الطَّیْرُ مِنْهُؕ-نَبِّئْنَا
بِتَاْوِیْلِهٖۚ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ(سورۃ
یوسف۔۳۶)
ترجمہ کنز الایمان:
اور اس کے ساتھ قیدخانہ میں دو جوان
داخل ہوئے ان میں ایک بولا میں نے خواب دیکھا کہ شراب نچوڑتا ہوں اور دوسرا بولا
میں نے خواب دیکھا کہ میرے سر پر کچھ روٹیاں ہیں جن میں سے پرندے کھاتے ہیں ہمیں
اس کی تعبیر بتائیے بےشک ہم آپ کو نیکوکار دیکھتے ہیں
ان دونوں قیدیوں کے خواب کی تعبیر
جو حضرتِ یوسف نے بیان فرمائی اسے قرآن مقدس میں یوں فرمایا
یٰصَاحِبَیِ
السِّجْنِ اَمَّاۤ اَحَدُكُمَا فَیَسْقِیْ رَبَّهٗ خَمْرًاۚوَ اَمَّا الْاٰخَرُ
فَیُصْلَبُ فَتَاْكُلُ الطَّیْرُ مِنْ رَّاْسِهٖؕقُضِیَ
الْاَمْرُ الَّذِیْ فِیْهِ تَسْتَفْتِیٰنِؕ(سورۃ یوسف۴۱)
اے قید خانہ کے دونوں ساتھیو تم میں
ایک تو اپنے رب (بادشاہ)کو شراب پلائے گا
رہا دوسرا وہ سو لی دیا جائے گا تو پرندے اس کا سر کھائیں گے حکم ہوچکا اس
بات کا جس کا تم سوال کرتے تھے
تفسیر خزائن العرفان میں صدرالافاضل
رحمہ اللہ نےنقل فرمایا حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ تعبیر
سن کر ان دونوں نے حضرت یوسف علیہ الصلٰوۃ و السلام سے کہا کہ خواب تو ہم نے کچھ
بھی نہیں دیکھا ہم تو ہنسی کر رہے تھے
حضرت یوسف علیہ الصلٰوۃ و السلام نے فرمایا جو میں نے کہہ دیا یہ ضرور واقع ہوگا ، تم نے
خواب دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو اب یہ حکم
ٹل نہیں سکتا جاننا چاہئیے خواب کی تعبیر
کا علم ظن و تخمین اور فراست پر مبنی ہے
لیکن حضرتِ یوسف علیہ السلام کو اللہ نے خواب کی تعبیر کا علم ظنی و تخمینی نہیں بلکہ
یقینی و قطعی طور پر بذریعہ وحی عطاء فرمایا تھا
اور آپ تعبیرِ رویا کے علم میں جس درجہ پر فائز تھے کوئی اس درجے کو نا
پہنچا لہذا جیسی تعبیرخواب کی حضرتِ یوسف علیہ السلام نے بتائی تھی ان دونوں
قیدیوں کے ساتھ من و عن ویسا ہی ہوا ،ساقی
و نانبائی کے بیان کردہ خواب کے معلق تین قسم کے اقوال تفاسیر میں ملتےہیں
- حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ تعبیر سن کر ان دونوں نے حضرت یوسف علیہ الصلٰوۃ و السلام سے کہا کہ خواب تو ہم نے کچھ بھی نہیں دیکھا ہم تو ہنسی کر رہے تھے
- مجاہد اور امام ابن اسحاق رحمہ اللہ نے کہا انہوں نے سچا خواب بیان کیا تھا اور انہوں نے واقعی خواب دیکھا تھا
- ابو مجاز نے کہا نانبائی نے جھوٹا خواب بیان کیا تھا اور ساقی نے سچا خواب بیان کیا تھا
اب خواب کی تعبیر
کےتعلق سے اصول ذہن نشیں کیجئے تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو مشکوۃ
شریف کی حدیث میں فرمایا خواب
پرندے کے پاؤں پر ہوتا ہے جب تک اس کی خبر نہ دی جائے جب وہ بیان کردی جائےتو واقع
ہوجاتا ہے اس حدیث کی شرح مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمہ اللہ نے یوں فرمائی "
یہاں اتنا سمجھ لو کہ خواب
تعبیر سے پہلے اڑتی ہوئی چڑیا ہے جو ظاہر نہیں ہوتی مگر تعبیر ہوجانے کی صورت میں
ضرور واقع ہوتاہے اور تعبیر میں پہلی تعبیر کا اعتبار ہے بعد کی دی ہوئی تعبیر کا اعتبار نہیں یعنی پہلی
بارتعبیر لینے کے لیے اپنی خواب یا اپنے پیارے سے بیان کرو یا بہت سمجھ دار سے جسے
خواب کی تعبیر کا علم ہوپیارا اگر تعبیر نہ جانتا ہوگا تو تعبیر دے گا ہی
نہیں،عالم تعبیر دے گا مگر درست،بے علم بے وقوف سے خواب نہ کہو کہ وہ غلط تعبیر دے
کر تمہارا خواب بگاڑ دے گا حکایت ہے کہ
ایک عورت کا خاوند تلاش روزگار میں باہر گیا ہوا تھا عورت نے خواب میں دیکھا کہ
میرے خاوند کے منہ سے کوے نکل کر اڑ رہے ہیں،اس نے اپنی پڑوسن سے بیان کیا وہ بولی
کہ کوے تو مردے کے منہ سے اڑتے ہیں تیرا خاوند مرگیا ہوگا،پھر وہ عالم وقت کے پاس
گئی انہوں نے فرمایا کہ تیرا خاوند توپ خانہ کا مالک کردیا گیا ہے،کچھ روز بعد اس
کی موت کی خبر آگئی تو وہ پھر ان عالم کے پاس گئی اور ماجرا بیان کیا،عالم نے
فرمایا کہ خواب کی پہلی تعبیر ہی ہوتی ہے تو نے اس نادان عورت سے اپنا خواب کہہ کر
تعبیر خراب کرلی۔"
روحانی مرض خواب کی مثل اور علاج
تعبیر کی طرح ہے
جس طرح خواب دیکھنے والے کو چاہئیے
کہ اپنا خواب کسی معتبر شخص یا عالمِ دین کو سنا کر تعبیر لے اسی طرح روحانی مسائل
کے شکار افراد کو بھی چاہئے کہ مخلص عامل یا عالم دین کو ہی اپنا مسئلہ بتائے بلکہ
پہلے خوب تحقیق کر لے کہ یہ معالج کیسا ہے
اس کے بعد ہی رابطہ کرے اور ان کے
لگائے گئے احکام اور بتائے گئے علاج پر کاربند ہو تاکہ سلامتی کے ساتھ علاج مکمل
ہو اور مریض سحر جادو شیاطین یا جنات سے نجات حاصل کرے ،لیکن افسوس ایسا ہوتا نہیں
لوگ ایک مسئلہ کے لئے مختلف عاملین سےرابطہ کر تےہیں ظاہر ہے ہر کسی کی تشخیص الگ
الگ ہوگی اور یہ ایک بدیہی امر ہے جیسے ڈاکٹروں کے رپورٹس جدا ہوتے ہیں ، اس طرح
وہ تشخیص کے مرحلے میں ہی تردد کا شکارہوکر روحانی معالجین سے بد ظن یا سوئے
اعتقاد میں مبتلا ء ہو جاتا ہےاور اگریہ نہ ہو تو کم از کم جو اس کا سب سے بڑا
نقصان ہوتا ہے وہ یہ کہ مختلف عاملوں کی
فاعل قوتِ نفسی ان کے بتائے گئے احکام و علاج کے ذریعہ سائل کے مفعول نفس و قلب پر اثر انداز ہوتے ہیں اس طرح جو مسئلہ چند
ہفتوں میں حل ہونا چاہئے اسے مہینوں لگ جاتے ہیں
اس لئے فقیر قادری کہتا ہے کہ روحانی مرض خواب کی مثل ہے جیسے خواب بیان
کرنے سے قبل خوب غور و فکر کرتے ہیں کہ کس کو بتاکر تعبیر لی جائے ایسے ہی خدا
نخواستہ آپ کسی روحانی مرض سے شکار ہوں ہو پہلے خوب چھان بین کیجئے جب اعتماد
ہوجائے تب رابطہ کیجئے کیوں کہ کوئی بھی روحانی معالج جب تشخیص کے بعد علاج تجویز
کرتا ہے تو اس تجویز شدہ باتوں کا پورا کرنا علاج کے لئے نہایت ضروری اور لازمی ہو
جاتا ہے ورنہ علاج مکمل نہیں ہوتا میری اس بات سے ہر اس شخص کو اتفاق ہوگا جو روحانی علاج و معالجہ کا شغل رکھتا ہے اس واسطے میں نے
عنوان قائم کیا کہ روحانی علاج خواب کی تعبیر کے مثل ہے جیسی دی جائے ویسے ہو جاتی
ہے اس کی بے شمار نظیر میرے سامنے ہے مثلاً آج
میں نے کسی خاتون کا علاج کیا جسے شیطانی اثرات تھے ان کا علاج شروع کرنے
سے قبل میں نے ان کے شوہر کو بتایا کہ بھئی دورانِ چلہ ان کے نام سے ایک بکری صدقہ
کی نیت سے کسی مدرسے میں دینا ہے انہوں کہا جی ٹھیک ہے چلہ مکمل ہو گیا اور مریضہ اچھی ہو گئی ،جب
فائدہ ہو جاتا ہے تو کوئی کیوں بتانے آئے لہذا ایسا ہی ہوا وہ صاحب اپنے مسئلے کے
ساتھ غائب ہو گئے لیکن ایک سال کے بعد پھر ہانپتے کانپتے آئے اور کہنے لگے میری
اہلیہ وہی سب حرکتیں پھر سے کر رہی ہے میں نے تشخیص کری تو کچھ نا آیا پھر معاً
مجھے القا ء ہوا کہ کہیں اس نے صدقہ سے تو
ہاتھ نہیں روک لیا تھا میں نےبرجستہ اس
شخص سے کہا جو صدقہ تمہیں بتایا گیا کیا وہ تم نے کیا تھا؟ بولا نہیں میں نے سوچا
فائدہ ہو رہا ہے تعویذ سے تو رہنے دو میں نے کہا ابھی جا اور ایک بکری خرید وہ شخص
اٹھا بازار گیا جانور خرید کر مدرسہ میں دے کر گھر چلا گیا گھر پہنچ کر مجھے فون
پر بولتا ہے ابھی میری اہلیہ کچھ ٹھیک ہے میں نے تین دن میں بالکل ٹھیک ہو جائے گی
اوراللہ کے فضل ویسا ہی ہوا
شوقیہ تشخیص کرانے والے لوگوں کا
حال
روحانی معالجین کے پاس اکژ ایسے لوگ
بھی رابطہ کرتے ہیں جن کو کوئی مرض روحانی نہیں ہوتا بس شوقیہ سوال کرتے ہیں کہ
زرا دیکھئے کوئی جادوبندش وغیرہ تو نہیں میرے ساتھ ،اور کہتے ہیں حضرت زرا اچھا سے
چیک کر کے بتائیے اس طرح وہ خود کو
خوامخواہ مصیبت میں ڈالتے ہیں کہ اگراس
عامل کی قوتِ نفسی فاعل ہوئی تو اس
کے لگائے گئے احکام کا اثر سائل کے نفس تک پہنچتا ہے اور خدا نخواستہ اگر نیت
امتحان کی ہو اور عامل اپنے تشخیص میں بھی خوب اخلاص کا مظاہرہ کرے تو سائل کی
حالت اس نانبائی کی طرح ہو جائے گی جس کا قصہ آپ اوپر پڑھ آئے ہیں کہ اس نے خواب
تو نہیں دیکھا تھا لیکن ہنسی یا آزمائش کے طور پر حضرتِ یوسف علیہ السلام کو جھوٹا
خواب بتاکر تعبیر لینا چاہتا تھا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے موت کا پروانہ اس کے ہاتھ
میں تھما دیا گیا اس طرح کے بہت سارے واقعات مختلف بزرگوں کے آپ نے سنے ہوں گے کچھ لوگوں نے بطورِ
آزمائش ایک بندے کو مردےکی کھاٹ پر لٹا کر
بزرگ کے پاس لائے اور کہا حضرت جناہ پڑھا دیجئے جب بزرگ نے جنازہ پڑھا دیا تو بات
مکمل ہو گئی اور کام تمام ہو گیا ان
مثالوں کے دینے سے کوئی یہ گمان ہرگذ نہ کرے کہ کوئی بھی روحانی معالج یا عامل جو
کہہ دیتا ہے وہ ہوکر رہتا ہے ،نہیں بلکہ تعبیرِ خواب اور تشخیصِ مرض کے مابین جو
نکتئہ روحانی مشترک ہے یہاںصرف اسی سے کام ہے
اور سمجھانا صرف یہ مقصود ہے کہ جس طرح خواب دیکھ کر تعبیر لینے کے اصول
ہیں اور بنا خواب دیکھے جھوٹا خواب گڑنا فضول ہے اسی طرح اگر آپ کسی روحانی مرض کے
شکار نہ ہوں تو بلا وجہ شوقیہ تشخیص و استخارے کرواتے نہ پھریں کہ کسی بندہ خدا کے
ہتھے چڑھ گئے تو لینی کے دینی پڑجائے گی الامان والحفیظ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح
فکر اور علمِ نافع عطاء فرمائے
سچا سائل و حاجتمند بادشاہ کےساقی
کی طرح ہے
ساقی اور نانبائی کے خواب کے متعلق
تین قسم کے اقوال کتبِ تفاسیر میں ملتے ہیں ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ نانبائی نے جھوٹا
خواب دیکھا تھا اور ساقی نے سچا لہذا ساقی کا تعبیر دریافت کرنا بالکل صحیح تھا اور نانبائی کا نہایت غلط اس
واسطے تعبیر ِ رویا سے فائدہ صرف ساقی کو پہنچا اور کامیاب ہوا جبکہ نانبائی ناکام
ہوکر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا ،اسی طرح جو سچا سائل یا حاجتمند ہوتا ہے وہ
فائز المرام ہوتا ہے اور تشخیصِ مرض کا فائدہ صرف اسے ہی پہنچتا ہے حتیٰ کہ اس کا
علاج مکمل ہوتا ہے اور وہ روحانی معالج سےمکمل یا
مثبت استفادہ کرتا لیکن جو سائل بناوٹی ہوتا ہے وہ نانبائی کی طرح شوقیہ
تشخیص کرواتا پھرتا ہے اور اپنے زعم میں استفادہ توکرتا ہے لیکن وہ استفادہ نا
مکمل یا منفی ہوتا ہے
اس موضوع پر کہنا تو بہت کچھ ہے
لیکن اختصار بھی مطلوب ہے اللہ تبارک و تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو علمِ نافع عطاء
فرمائے آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم